مسلمانوں
کے اتحاد کی اہمیت ، قرآن کی روشنی
واعتصموا بحبل اللہ
جمیعا :اللہ کی رسی کو سب مل کر مضبوط تھامو۔
اس
آیت میں مسلمانوں کو دو ہدایتیں دی گئی ہیں، اول یہ کہ اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے
نظام حیات کے پابند ہوجائیں ، دوسرے یہ کہ سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی کے ساتھ
تھام لیں۔ تاکہ ملت اسلامی کا شیرازہ خود بخود منظم ہوجائے ، جیسا کہ اسلام کے
قرون اولیٰ میں اس کا مشاہدہ ہوچکا ہے ۔
مسلمانوں میں اتفاق کے
ایجابی پہلو کی وضاحت کے بعد فرمایا :( ولا تفرقوا) باہم نا اتفاقی نہ کرو، قرآن
کریم کا یہ حکیمانہ انداز ہے کہ وہ جہاں ایجابی پہلو کو واضح کرتا ہے ، وہیں سلبی
پہلو سے ، مخالف چیزوں سے منع بھی فرماتا ہے ۔ چنانچہ ایک دوسری آیت میں ارشاد
فرمایا :( وان ھذا صراطی مستقیما) اس آیت میں بھی صراط مستقیم پر قائم رہنے کی
تلقین کی ہے اور اپنی خواہشات کے زیر اثر خود ساختہ راستوں پر چلنے کی ممانعت ۔
نااتفاقی کسی قوم کی ہلاکت کا سب سے پہلا اور آخری سبب ہے ۔ اسی لیے قرآن کریم نے
بار بار مختلف اسالیب میں اس کی ممانعت فرمائی ہے ۔ ایک دوسری آیت میں فرمایا :(
ان الذین فرقوا دینھم وکانوا شیعا لست منھم فی شیء )یعنی جن لوگوں نے اپنے دین میں
تفرقے ڈالے اور مختلف پارٹیوں میں تقسیم ہوگئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ان سے
کوئی تعلق اور واسطہ نہیں ۔
علاوہ ازیں انبیاء
علیہم السلام کی امتوں کے واقعات کو نقل فرمایاکہ کس طرح وہ امتیں باہمی اختلا ف
وشقاق کے باعث مقصد حیات سے منحرف ہوکر دنیا وآخرت کی رسوائیوں میں مبتلا ہوچکی
ہیں۔
حضور اکرم صلی اللہ
علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے تین چیزوں کو پسند فرمایا
ہے اور تین چیزوں کو ناپسند
۔ پسندیدہ چیز یہ ہیں:۔
اول یہ کہ تم عبادت
اللہ تعالیٰ کے لیے کرو۔ اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹہراؤ ۔
دوم یہ کہ اللہ تعالیٰ
کی کتاب کو مضبوطی سے تھامو ، اور نااتفاقی سے بچو ۔
سوم یہ کہ اپنے حکام
اور اولو الامر کے حق میں خیر خواہی کا جذبہ رکھو۔
اور وہ تین چیزیں جن
سے اللہ تعالیٰ ناراض ہوتے ہیں ۔ یہ ہیں:۔
(۱ ) بے ضرورت قیل وقال اور بحث ومباحثہ
(۲) بلا ضرورت کسی سے سوال کرنا
(۳) اضاعتِ مال (ابن کثیر عن ابی ہریرۃؓ )
اب سوا ل یہ رہ جاتا
ہے کہ کیا ہر اختلاف مذموم ہے ، یا کوئی اختلاف غیر مذموم بھی ہے ۔ جواب یہ ہے کہ
ہر اختلاف مذموم نہیں ہے ، بلکہ مذموم وہ اختلاف ہے کہ جس میں اپنی اہوا وخواہشات
کی بناء پر قرآن سے دور رہ کر سوچا جائے ۔ لیکن اگر قرآن پر مجتمع رہتے ہوئے اور
حضو راکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریح وتفصیل کوقبول کرتے ہوئے اپنی فطری استعداد
اور دماغی حیثیتوں کی بناء پر فروع میں اختلاف کیا جائے تو یہ اختلاف فطری ہے ۔
اور اسلام اس سے منع نہیں کرتا۔ صحابہ وتابعین اور ائمہ فقہاء کا اختلاف اسی قسم
کا تھا، اور اسی اختلاف کو رحمت قرار دیا گیا ، ہاں اگر انہی فروعی بحثوں کو اصل
دین قرار دیا جائے اور ان میں اختلاف کو جنگ وجدال اور سب وشتم کا ذریعہ بنالیا
جائے تو یہ بھی مذموم ہے ۔ (معارف القرآن، ج۲ص۱۳۴)
ولتکن منکم امۃ یدعون
الی الخیر
ترجمہ :۔اور تم میں
ایک ایسی جماعت ہونا ضروری ہے کہ ( اورلوگوں کو بھی ) خیر کی طرف بلا کریں اور نیک
کاموں کے کرنے کو کہا کریں ۔ اور برے کاموں سے روکا کریں اور ایسے لوگ (آخرت میں
ثواب سے ) پورے کامیاب ہوں گے ۔ اور تم لوگ ان لوگوں کی طرح مت ہوجانا ، جنہوں نے(
دین میں) باہم تفریق کرلی۔ اور (نفسانیت سے ) باہم اختلاف کرلیاان کے پاس واضح
احکام پہنچنے کے بعد اور ان لوگوں کے لیے سزائے عظیم ہوگی۔ (یعنی قیامت کے روز)
مسلمانوں کی قومی
اوراجتماعی فلاح دوچیزوں پر موقوف ہے ،
پہلے تقویٰ اور اعتصام
بحبل اللہ کے ذریعہ اپنی اصلاح ، دوسرے دعوت وتبلیغ کے ذریعہ دوسروں کی اصلاح
۔ مذکورہ بالاآیتوں کا خلاصہ یہ ہوا کہ خود بھی اپنے اعمال واخلاق
کو اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے قانون کے مطابق درست کرو۔ اور اپنے دوسرے بھائیوں کے
اعمال کو درست کرنے کی بھی فکررکھو۔
قومی اور اجتماعی
زندگی کے لیے جس طرح یہ ضروری تھا کہ ان کا کوئی مضبوط ومستحکم رشتۂ حرمت ہو، جس
کو پہلی آیت میں اعتصام بحبل اللہ کے الفاظ سے واضح فرمایا گیا ہے اسی طرح رشتہ کو
قائم اور باقی رکھنے کے لیے یہ دوسرا عمل بھی ضروری ہے جو اس آیت میں ارشاد فرمایا
گیا ہے ، یعنی دوسرے بھائیوں کو احکام قرآن وسنت کے مطابق اچھے کاموں کی ہدایت اور
برے کاموں سے روکنے کو ہر شخص اپنا فریضہ سمجھے تاکہ یہ حبل اللہ اس کے ہاتھ سے
چھوٹ نہ جائے ۔ کیونکہ بقول شیخ الاسلام مولانا شبیر احمد عثمانیؒ ’’ اللہ تعالیٰ
کی یہ رسی ٹوٹ تو نہیں سکتی، ہاں چھوٹ سکتی ہے ‘‘ اس لیے قرآن کریم نے اس رسی کے
چھوٹ جانے کے پیش نظر یہ ہدایت جاری فرمائی کہ ہر مسلمان جس طرح خود نیک عمل کرنے
کواور گناہ سے بچنے کو اپنا فرض سمجھتا ہے اس کو بھی ضروری سمجھے کہ دوسرے لوگوں
کو بھی نیک عمل کی ہدایت اور برے اعمال سے روکنے کی کوشش کرتا رہے ۔ جس کا نتیجہ
یہ ہوگا کہ سب مل کر مضبوطی کے ساتھ حبل متین کو تھامے رہیں گے اور اس کے نتیجہ
میں فلاح دنیا وآخرت ان کے ساتھ ہوگی۔ اپنی اصلاح کے ساتھ دوسروں کی اصلاح کی ذمہ
داری ہر مسلمان پر ڈالنے کے لیے قرآن کریم میں بہت سے واضح ارشادات وارد ہیں
۔ اور اسی سورۂ آل عمران میں ارشاد ہے کنتم خیر امۃ اخرجت للناس
الخ تم بہترین امت ہو جو لوگوں کے لیے نکالی گئی ہے۔ کیونکہ تم نیک کاموں کا لوگوں
کو حکم کرتے ہواور برے کاموں سے روکتے ہو۔ اس میں بھی پوری امت پر امر بالمعروف
اور نہی عن المنکر کا فریضہ عائد کیا گیا ہے ۔ اور دوسری امتوں پر اس کی فضیلت کا
سبب ہی اس خاص کا م کو بتلایا ہے ۔
اسی طرح رسول اللہ صلی
اللہ علیہ وسلم کے ارشادات اس بار ے میں بے شمار ہیں، ترمذی اور ابن ماجہ وغیرہ کی
روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:۔’’قسم ہے اس ذات کی جس کے
قبضے میں میری جان ہے کہ تم ضرور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرتے رہو، ورنہ
قریب ہے کہ اللہ تعالیٰ گنہگاروں کے ساتھ تم سب پر بھی اپنا عذاب بھیج دے ۔ اس وقت
تم خدا تعالیٰ سے دعا مانگو گے تو قبول نہ ہوگی۔
ایک حدیث میں رسو ل
کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے : ۔ ’’ تم میں سے جو شخص کوئی گناہ ہوتا ہوا
دیکھے تو اس کو چاہیے کہ اپنے ہاتھ سے اور قوت سے اس کو روک دے ۔ اگر یہ بھی نہ
کرسکے تو زبان سے روکے اور یہ بھی نہ کرسکے تو کم از کم دل میں اس فعل کو برا
سمجھے اوریہ ادنیٰ درجہ کا ایمان ہے ۔
ان تمام آیات اور
روایات سے یہی ثابت ہوا کہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر امت کے ہر فرد پر لازم
ہے ، البتہ احکام شرعیہ کی طرح اس میں بھی ہر شخص کی قدرت واستطاعت پر احکام دائر
ہوں گے ،جس کو جتنی قدرت ہو اتنا ہی امر بالمعروف کا فریضہ اس پر عائد ہوگا۔
(معارف القرآن ج۱،
ص۱۳۶
No comments:
Post a Comment